اسرائیل نے اپنے سب سے بڑے دشمن حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کو قتل کر دیا ہے۔ان کے ساتھ مارے گئے حماس کے دو سینئر کمانڈروں کے نام محمود حمدان اور ہانی ہمدان بتائے گئے ہیں۔ بتایا گیا کہ یحییٰ سنور نے موت کے وقت دستی بموں سے بھری جیکٹ پہن رکھی تھی۔ جس کی وجہ سے اسرائیلی فوجی کافی دیر تک ان کے قریب جانے سے گریز کرتے رہے۔ حماس کے سربراہ اور 7 اکتوبر کے حملے کے ماسٹر مائنڈ یحییٰ سنوار کی لاش ملبے تلے دبی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ سنوار کی تصویریں آن لائن گردش کرنے لگی ہیں
یحییٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے کی ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ جنگ اب تک ختم نہیں ہوئی ہے۔ وہیں حماس نے ابھی تک اس پر کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے۔ یحییٰ سنوار گزشتہ سال 7 اکتوبر کو اسرائیل میں ہونے والے حملوں کا ماسٹر مائنڈ تھے۔
ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق نیتن یاہو نے اپنے ساتھیوں کو ہدایت کی کہ وہ اسرائیلی یرغمالیوں کے اہل خانہ کو مطلع کریں کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار مارے گئے ہیں۔ دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے کہا کہ حماس کے سربراہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت کی تصدیق ابتدائی ڈی این اے جانچ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
اطلاعات کے مطابق اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز نے امریکہ کو اس بارے میں آگاہ کیا ہے۔ ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد اسرائیل نے تسلیم کیا ہے کہ یحییٰ سنوار کی ہلاکت ہوئی ہے۔ بتایاجارہاہے کہ اسرائیلی فوج کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ جس عمارت پر حملہ کیاگیاہے وہاں یحییٰ سنوار بھی موجود ہیں۔
یحییٰ سنوار کی شناخت کیسے ہوئی؟
عمارت گرنے کے بعد اسرائیلی فوجی معائنہ کے لیے موقع پر پہنچ گئے۔ تب انہیں معلوم ہوا کہ ہلاک ہونے والے تینوں میں سے ایک مہلوک کی یحییٰ سنور سے مشابہت ہے ۔ جائے وقوعہ سے ملنے والی تصویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یحییٰ سنور نے فوجی لباس پہن رکھا ہے۔ اس میں ایک دستی بم بھی رکھا گیا تھا۔ اسرائیلی فوجیوں نے بعد میں سنوار کی موت کی تصدیق کے لیے ڈی این اے کا ٹیسٹ کروایا۔
یحییٰ سنوارکون تھے؟
یحییٰ سنوارکا پورا نام یحییٰ ابراہیم حسن سنوار ہے۔ وہ غزہ پٹی کے جنوبی علاقے میں واقع خان یونس مہاجر کیمپ میں پیدا ہوئے۔ 1948 میں جب اسرائیل وجود میں آیا تو ہزاروں فلسطینیوں کو ان کے آبائی گھروں سے بے دخل کر دیا گیا۔ ان میں یحییٰ سنوار کا خاندان بھی شامل تھا۔ سنوار کے والدین پھر غزہ میں پناہ گزین بن گئے۔ 1989 میں 19 سال کی عمر میں سنوار پر قتل کا الزام لگا۔ 2 اسرائیلی فوجیوں کے قتل کا الزام ثابت نہیں ہوا تاہم انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم سنہ 2011 میں سنوار کو بھی اسرائیلی فوجی گیلاد شالیت کے بدلے ایک ہزار سے زائد قیدیوں کے تبادلے کے دوران رہا کیا گیا تھا۔ اس دوران سنوار نے 23 سال جیل میں گزارے۔
حماس نے تصدیق نہیں کی۔
دوسری جانب حماس کی جانب سے بھی فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ المجد، حماس سے منسلک ویب سائٹ جو عام طور پر سیکورٹی کے مسائل کے بارے میں شائع کرتی ہے، نے فلسطینیوں پر زور دیا کہ وہ گروپ سے ہی یحییٰ سنوارکے بارے میں معلومات کا انتظار کریں۔