نئی دہلی : جموں و کشمیر میں بدھ کو نئی حکومت کی تشکیل ہوئی۔ ایل جی منوج سنہا نے عمر عبداللہ کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد تشکیل پانے والے نئے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے پہلے وزیر اعلی کے طور پر حلف دلایا۔ جمعرات کو سپریم کورٹ میں کچھ ایسا ہوا، جس کے بعد وادی کے لوگوں میں امید پیدا ہوگئی ہے کہ اب مکمل ریاست کا درجہ مل جائے گا۔ دراصل چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ کی بنچ کے سامنے ایک عرضی داخل کی گئی ، جس میں جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا گیا ۔ سی جے آئی نے اس عرضی کو قبول کر لیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ چیف جسٹس آف انڈیا 10 نومبر کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس تاریخ سے پہلے عرضی کو بھی نمٹا دیں گے۔
اس کا صاف مطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اس درخواست کو سماعت کے قابل سمجھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ CJI بنچ اس عرضی پر کیا فیصلہ دیتی ہے۔ جب جموں و کشمیر میں آخری بار 2014 میں انتخابات ہوئے تھے تو یہ خصوصی درجہ والی ریاست تھی۔ ایسے میں عمر عبداللہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے وادی کو مکمل ریاست کا درجہ دلانے کے لیے لڑائی کی بات کی ہے۔ سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ مقررہ وقت میں بحال کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے، جس پرعدالت نے کہا کہ وہ اس کو لسٹ کرنے پر غور کرے گی۔
‘میں اس سے نمٹاؤں گا’
سی جے آئی ڈی وائی چندرچوڑ، جسٹس جے بی پاردی والا اور منوج مشرا کی بنچ کے سامنے اس درخواست پر فوری سماعت کی درخواست کی گئی تھی۔ سینئر وکیل گوپال شنکرنارائنن نے عرضی پر کہا کہ جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دینے کے لیے مسلینیس ایپلی کیشن دائر کی گئی ہے۔ پچھلے سال کے فیصلے میں اس کا ذکر کیا گیا تھا کہ اسے مقررہ وقت میں کیا چاہیے۔ جس کے بعد سی جے آئی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ میں اس سے نمٹاوں گا۔ نئی درخواست جموں و کشمیر کے ماہر تعلیم ظہور احمد بھٹ اور سماجی و سیاسی کارکن خورشید احمد ملک نے دائر کی ہے۔
عدالت کے حکم پر جموں و کشمیر میں انتخابات
11 دسمبر، 2023 کو ایک تاریخی فیصلے میں سپریم کورٹ نے متفقہ طور پر آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو برقرار رکھا تھا اور حکم دیا تھا کہ ستمبر 2024 تک وہاں اسمبلی انتخابات کرائے جائیں۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ جموں و کشمیر کی ریاستی حیثیت کو “جلد سے جلد” بحال کیا جانا چاہئے۔