۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
✒️ ڈاکٹر آصف فیضی ( مالیگاؤں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
( مالیگاؤں سے سورت اور سورت سے مالیگاؤں سرکاری بس سے ایک روزہ سفر کی روداد suffer )
نوٹ ۔ آپ قارئین میں شاید ہی کوئی ایسا کم نصیب ہوگا جس نے سرکاری بس سے سفر نہ کیا ہو، سرکاری بس کا شروع ہونا ، چلنا ، رکنا وغیرہ کا ہر شخص کو تجربہ ہوگا ، ذرا اس تجربے کو ذہین میں تازہ کر لیں اور مضمون پڑھیں ، یقیناً مزہ آئے گا ۔
مضمون میں بعض اشعار تھوڑی سی ترمیم کے ساتھ بغیر استعمال کئے گئے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لال ڈبے سے سفر ۔۔۔
و Suffer نامہ
--------------------------
سفر ،کتنی ہی آرام دہ سواری کے ذریعے ہو ، بہر حال سفر ہوتا ہے ، جس میں انسان suffer ہو ہی جاتا ہے۔
ماہ فروری کے ابتدائی ایام تھے۔ سردی کا موسم ڈیرہ ڈالے ہوئے تھا ۔سردی اپنے شباب پر تھی، شباب موسم کا ہو یا کسی اور چیز کا بہرحال قاتل ہوتا ہے۔ہمیں ایک تجارتی کام سے " ہیروں کے شہر", "سورت" کا سفر درپیش تھا۔ ہم صبح چار بجے اٹھ گئے ۔ تمام ضروری تیاری کر کے سفر کے لیے نکلنے لگے تو بیگم صاحبہ نے یاد دلایا کہ سفر میں سردی تو ہوگی اس لیے جیکٹ اور اونی ٹوپی پہن لیں ۔ نا چاہتے ہوئے بھی ہم نے از راہِ تکلف جیکٹ اور کان ٹوپ پہن لیا۔ ابھی سپیدۂ سحری نمودار نہیں ہوئی تھی ۔ ہم تیز گامی سے بس اسٹیشن پر پہنچے۔ چند منٹوں میں بس پلیٹ فارم پر آگئی۔ ہم بس میں سوار ہوگئے اور یہاں سے شروع ہوا سفر برائے suffer۔
وقت مقررہ پر بس اپنی خاص ادا سے شروع ہوئی، بس جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی اس کے تمام راز یکے بعد دیگرے ہم پر منکشف ہونے لگے۔بس اپنے سرکاری ہونے کا اعلان کرنے لگی اور سرکاری ہونے کے تمام ثبوت و شواہد یکے بعد دیگرے پیش کرنے لگی ۔
سردی کا موسم تھا ،کھڑکی کے شیشوں کے شگاف سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آنے لگیں۔
صبح کاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیرؔ
بس کی موسیقی بجی تو دل لہو سے بھر گیا
آہستہ آہستہ اندر کا موسم بھی سرد ہونے لگا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ ہم نے بیگم صاحبہ کے کہنے پر بادل ناخواستہ جیکٹ اور کان ٹوپ پہن لیا تھا۔ زندگی میں پہلی مرتبہ بیگم کا کہنا ماننے سے فائدہ ہوا تھا اسی لیے زندگی میں پہلی مرتبہ دل کی اتھاہ گہرائیوں سے بیگم صاحبہ کے لئے دعائیں نکل رہی تھیں۔ ہم سے ایک معمولی غلطی ہوگئ تھی جس کا ہمیں خمیازہ بھگتنا پڑا۔ ہم نے جرابیں نہیں پہنی تھیں اس لیے سرد ہواؤں سے ہمارے پیر شل ہوئے جارہے تھے۔ کھڑکی کی دراڑ سے آنے والی سرد ہواؤں نے ناک میں دم کردیا تھا۔ جس کے سبب ہمیں بار بار ناک ٹٹول کر یہ اطمینان کرنا پڑر ہا تھا کہ ناک سلامت ہے یا نہیں۔ خدا نا خواستہ اگر ناک کو کچھ ہو جاتا تو ہماری تو ناک ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ خیر
حالت اور حالات ایسے ہوگئے تھے کہ کبھی ہم کھڑکی کو کبھی اپنے پیروں کو دیکھتے تھے۔
سرما کی رات بس کا سفر اور اداسیاں
لمبا سفر ہے اور ترا ساتھ بھی نہیں
سرکاری بس کی کھڑکی کا ایک اہم وصف یہ ہے کہ اس سے ایک خاص قسم کی موسیقی بھی نکلتی ہے جو کانوں میں زہر گھول دیتی ہے ، جس سے دماغ کا فالودہ بن جاتا ہے۔
بس کی سیٹ کا کیا کہنا، ایسا لگتا تھا کہ سرکار نے خاص اسی مقصد سے اس قدر غیر آرام دہ سیٹ بنوائی تھی کہ کوئی مسافر چاہ کر بھی نہ آرام سے بیٹھنے پائے نہ سونے پائے۔ صحیح بات یہی ہے کہ آج سرکار کے علاوہ کوئی بھی نہ چین سے بیٹھ سکتا ہے نہ سکون سے سو سکتا ہے، اور سونے کے معاملے میں تو سرکار کا کوئی جواب نہیں ۔ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے ہم نے بس کا نہیں بلکہ اذیت حاصل کرنے کا ٹکٹ خرید لیا ہو ۔
اس سفر میں نیند ایسی کھو گئی
ہم نہ سوئے رات تھک کر سو گئی
بہر حال بس اپنی خاص ادا سے لہراتی ،بل کھاتی، ہچکولے کھاتی اپنی دھن میں منزل مقصود کی جانب تیزی رواں دواں تھی۔ ہر چھوٹے بڑے دیہات اور اسٹیشن پر رکنا سرکاری بس کا فرض عین ہوتا ہے۔ جس سے اذیت بھرا سفر مزید طویل ہوجاتا ہے۔ راستے میں آنے والے بریکر اور گڑھوں کو جب بس اپنی خاص ادا سے روندتے ہوئے آگے بڑھتی تھی تو ہم سیٹ سے اچھل جاتے تھے ، کبھی کبھار تو ہم سیٹ سے اس قدر اچھل جاتے کہ ہمارا سر بس کی چھت سے ٹکرا جاتا اور ہمارے دماغ کی چولیں ڈھیلی ہو جاتیں ۔ وہ تو اچھا تھا کہ ہم کان ٹوپ پہنا ہوا تھا پگڑی نہیں ۔
ساڑھے چھے گھنٹے کے اس تکلیف دہ سفر کے بعد آخر کار بس اپنی منزل پر پہنچ گئی۔ منزل پہنچ کر مسافروں کو جو خوشی حاصل ہوتی ہے اس احساس کو اس سرکاری بس نے دو بالا نہیں بلکہ سہ بالا ( شادی والا نہیں)کردیا تھا۔ بس سے اترنے کے بعد ہماری بھی وہی حالت تھی جو پروین شاکر کی عشق کے سفر میں ہوئی تھی۔
چلنے کا حوصلہ نہیں رکنا محال کردیا
"بس" کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا
بس سے اترنے کے بعد جسم کی ٢٠٦ ہڈلوں میں سے ١٠٦ کی حالت خراب تھی ، ٦٥ نے تو جواب دے دیا تھا ، ١٦ ہڈیاں تو جواب دینے کے قابل بھی نہیں تھی اور ١٤ تو جواب دینا بھی نہیں چاہتی تھیں۔ بہر کیف منزل پر صحیح سلامت پہنچنے پر ہم نے رب کا شکریہ ادا کیا۔ آٹو رکشا کے ذریعے مارکیٹ پہنچے۔ وقت کم تھا ،جلدی جلدی کام نمٹایا۔ واپسی بھی آج ہی تھی، واپسی کی فکر بھی دامن گیر تھی۔ واپسی کے لئے گاڑی ساڑھے تین بجے تھی۔ ہم نے تیزی سے کام ختم کیا مگر افسوس کام ختم ہونے پر وقت زیادہ ہوچکا تھا۔ گھڑی دیکھی تو پانچ گھڑی میں میں پانچ بج چکے تھے اور ہمارے بارہ ۔ اب دوسری سرکاری بس رات گیارہ بجے تھی، لگژری بس بھی رات گیارہ بجے تھی ۔ہم بڑے متذبذب تھے کہ اب کیا کریں۔
سوچا کہ بس اسٹیشن پہنتے ہیں کوئی راستہ ضرور مل جائے گا ۔ہم فوراً آٹو رکشا سے بس اسٹیشن پہنچے۔ خیال آیا کہ اگر ہمارے قریبی شہر دھولیہ یا ناسک کے لئے بس مل جائے تو بہتر ہوگا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ یہی خیال ہماری پریشانیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوا ۔ہم فوراً معلومات کے لیے" تفتیشی کھڑکی" پر پہنچے۔ ایک ملازم گردن جھکائے مصروف کار تھا۔ ہم ان صاحب سے گاڑی سے متعلق دریافت کیا ۔ پہلے تو موصوف کچھ دیر تک کام میں مصروف رہے ،پھر عینک کی اوٹ سے ہمیں گھور کر دیکھا پھر کرخت لہجے میں بتایا کہ دھولیہ کے لئے گاڑی نہیں ہے اور ناسک کے لئے گاڑی ابھی آدھے گھنٹے میں آنے والی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ سرکاری ملازم ہونے کے لیے کردار سخت اور لہجہ کرخت ہونا لازمی ہے۔
بہر حال ناسک کی گاڑی کی آمد کی نوید سن کر کچھ جان میں جان آئی۔ہم نے ناسک کی گاڑی سے سفر کرنے کا تہیہ کیا اور پلیٹ فارم پر پہنچ گئے۔ تھوڑی دیر میں ناسک کے لئے بس آن پہنچی۔ بس سے اترنے والوں سے زیادہ سوار ہونے والوں کو جلدی تھی۔تھوڑی جد و جہد کے بعد ہمیں بھی سیٹ مل گئی وہ بھی ڈرائیو کے بالکل پیچھے۔ ہمیں واپسی کی خوشی تو تھی مگر آنے والے طوفان کا اندازا نہیں تھا ۔ گاڑی شروع ہوئی۔ یہ بس گجرات ٹرانسپورٹ کی تھی۔ مگر وہی سرکاری بس کے تمام اوصاف سے متصف تھی۔ پتا نہیں کیا بات ہے سرکاری بس مہاراشٹر کی ہو، گجرات کی ہو، مدھیہ پردیش کی ہو راجستھان کی ہو یا کسی اور صوبے کی ، حالت اور حالات کم و بیش یکساں ہیں۔ یہ بات ہماری سمجھ سے پرے ہے کہ ہندوستان چاند پر قدم رکھ سکتا ہے مگر ایک اچھی بس کیوں نہیں بنا سکتا ؟ یہ بھی خیال آتا ہے کہ پتا نہیں چندر یان کی حالت کیا ہوگی؟چونکہ ہم ڈرائیور کے عین پیچھے کی سیٹ پر براجمان تھے اس لیے ہم کچھ نئے تجربات سےبھی گذر رہے تھے۔ گاڑی کے انجن کی ایک خاص بات یہ تھی اس میں سے ایسی موسیقی نکلتی تھی جیسے کوئی موسیقی کا استاد ریاض کررہا ہو۔ ڈرائیور جیسے جیسے ایکسی لریٹر بڑھاتا ویسے ویسے سر اوپر ہوتا جاتا اور جیسے جیسے ایکسی لریٹر کم کرتا ایک ایک سر کم ہوتا جاتا جس سے مسافروں کے دماغ کی دہی بن جاتی تھی۔
بس سست رفتاری سے، ایک ایک دیہات میں سلامی دیتے ہوئے آگے بڑھ رہی تھی۔ اس بار راستہ مزید کٹھن تھا، ایک تو راستے میں ایک گھنٹے کی مسافت کا گھاٹ, اس پر سرکاری بس۔ بس اپنی خاص ادا سے ہچکولے لیتی ہوئی، لہراتی بل کھاتی راستہ طے کرہی تھی اور مسافر خدا سے راستہ جلد کٹنے کی دعائیں کر رہے تھے ۔ بس کے پرزوں کے ساتھ ساتھ جسم کے سارے پرزے بھی جواب دینے لگے تھے ۔ گھاٹ پر جیسے ہی کوئی "یو ٹرن" آتا ہم فوراً بہ آواز بلند سورہ یاسین کی تلاوت کرنے لگتے۔ موت قریب دکھائی دینے لگتی۔ ڈر لگتا کہ نہ جانے کس موڑ پر زندگی کی شام ہوجائے ۔ایسا نہیں تھا کہ ہم نے کبھی گھاٹ نہیں دیکھا تھا ، لیکن بس سرکاری ہونے کے سبب اس بھروسہ نہیں ہو پار تھا۔
بس جسم کے سارے انچر پنچر ڈھیلے کرتے ہوئے کل ساڑھے آٹھ گھنٹے بعد اللہ اللہ کر کے ناسک پہنچ گئ۔ اس بس کے سفر میں ہم نے اپنے دل کی تسلی کے لئے اسرار الحق مجاز کی" نظم رات اور ریل " تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ کئی مرتبہ گنگنائی۔ مجاز کی یہ نظم تو ہم نے پہلے بھی پڑھی تھی مگر نظم آج جیسا مزہ دے رہی تھی پہلے کبھی ایسا مزہ نہ دے سکی تھی ۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر مجاز سرکاری بس سے سفر کرتے تو اس نظم کو سرکاری بسوں کی نذر ضرور کرتے۔ تھوڑی ترمیم کے ساتھ چند اشعار آپ بھی سن لیں
پھر چلی ہے بس اسٹیشن سے لہراتی ہوئی
نیم شب کی خامشی میں زیر لب گاتی ہوئی
ڈگمگاتی جھومتی میوزک بجاتی کھیلتی
وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی
اور یہ شعر بطور خاص صادق آتا ہے کہ
تیز تر ہوتی ہوئی منزل بمنزل دم بہ دم
رفتہ رفتہ اپنا اصلی روپ دکھلاتی ہوئی
یاد آ جائے پرانے دیوتاؤں کا جلال
ان قیامت خیزیوں کے ساتھ بل کھاتی ہوئی
جستجو میں منزل مقصود کی دیوانہ وار
اپنا سر دھنتی فضا میں بال بکھراتی ہوئی
دامن تاریکئ شب کی اڑاتی دھجیاں
قصر ظلمت پر مسلسل تیر برساتی ہوئی
ہر قدم پر توپ کی سی گھن گرج کے ساتھ ساتھ
گولیوں کی سنسناہٹ کی صدا آتی ہوئی
الغرض اڑتی چلی جاتی ہے بے خوف و خطر
شاعر آتش نفس کا خون کھولاتی ہوئی
بہر کیف شاعر آتش نفس کے ساتھ ساتھ ہم جیسے مسافران آتش نفس کا بھی خون کھولاتی ہوئی بس نے ہمیں ابھی ایک منزل تک تو پہنچا دیا تھا تاہم منزل مقصود اب بھی بہت دور تھی۔
کھلا ایک اور قفس میں قفس کا دروازہ
اک اور قید کی تمہید تھی رہائی بھی
بس سے اترنے کے بعد ہم اگلی آزمائش کے لئے تیار تھے ۔ ہم" دوارکا سرکل" پر مالیگاؤں کے لئے بس کے منتظر تھے۔ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ جتنی لگژری بسیں آرہی تھیں ، سب بھری تھیں۔ خدا خدا کرکے دور سے ایک بس بل کھاتے ہوئے ہماری جانب آتے ہوئے نظر آئی۔ دل خوشی کے مارے بلیوں اچھلنے لگا ۔مگر جیسے جیسے بس قریب آتی گئی دل بیٹھنے لگا کیوں کہ یہ پھر وہی لال ڈبہ تھا، جس پر ہم اب سوار ہونا نہیں چاہتے تھے مگر مرتا کیا نا کرتا ۔۔۔۔ گھر جلد پہنچنا بھی ضروری تھا۔۔۔۔ دل پر پتھر رکھ کر بلکہ دل مضبوط کر کے ہم بادل ناخواستہ اسی بس میں سوار ہوگئے۔ اندر داخل ہوئے تو بس بھری ہوئی تھی۔ بیٹھنے کے لئے سوائے زینے کے اور کوئی جگہ دستیاب نہ ہو سکی ، ہم مجبوراً زینے پر ہی براجمان ہوگئے۔ بس اپنی فطرت کے مطابق موسیقی ریز صداؤں کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں تھی۔ چونکہ ہمیں زینے پر جگہ ملی تھی اس لیے ہم بطور خاص بس کے دروازے سے بھی لطف اندوز ہورہے تھے۔ بس کے دروازے کا لاک سسٹم وہی 1857 والا تھا جس سے دروازہ لاک تو ہوجاتا ہے مگر دروازے سے نکلنے والی کھڑ کھڑ کھڑ کھڑ کی آواز سے دل و دماغ دونوں کی چولیں ہل جاتی ہیں۔ پورا راستہ ہم دل ہی دل میں یہ دعا کرتے رہے کہ کاش ہندوستان اتنی ترقی کر لے کہ پوری بس نہ سہی کم از کم بس کا دروازہ ہی اچھا بنالے۔ اگر ایسا ہوگیا تو ہم اسے چاند پر قدم رکھنے کے مثل سمجھیں گے ۔طویل مسافت کی بس ہونے کے سبب سیٹ پر براجمان تمام مسافر خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے اور ہم بیدار و بیزار زینے پر بیٹھے اپنی قسمت کو رو رہے تھے۔ بس فراٹے بھرتی ہوئی، دو گھنٹے کی مسافت کے بعد خدا خدا کرکے مالیگاؤں پہنچ گئ۔ ہم خوشی خوشی بس سے نیچے اتر آئے اب ہماری حالت احمد فراز کے اس شعر سے بھی زیادہ بری ہوچکی تھی ۔
ایک سفر وہ ہے جس میں
پاؤں نہیں دل تھکتا ہے
اس سفر میں تو پاؤں کیا، دل اور دماغ کے ساتھ ساتھ جسم کی ایک ایک ہڈی اور ایک ایک بوٹی تک تھک چکی تھی۔
اس سفر کے دوران ہم نے کچھ باتوں کا تہیہ بھی کرلیا وہ یہ کہ
اگر ہمیں ہندوستان کا وزیر اعظم بنایا گیا تو ہم سب سے پہلے عوام الناس کی فلاح کے لئے لال ڈبے کی جگہ نئی لگژری بسوں کا اجراء کریں گے اور عوام الناس کو لال ڈبے کے عذاب سے نجات دلوائیں گے ، تاکہ کوئی پھر کوئی آصف فیضی Suffer نامہ لکھنے پرمجبور نہ ہوسکے۔
لال ڈبہ بسوں کا استعمال صرف اور صرف
مجرمین کو سزا دینے کے لئے کریں گا۔
اور
جب تک وزیر اعظم نہیں بن جاتے ، لال ڈبے سے سفر نہیں کریں گے ۔
سامعین /قارئین کے گذارش ہے کہ ہمارے لیے استقامت کی دعا ضرور کریں ۔
پیشگی شکریہ۔🍁